پیدل چلنے اور سوچنے کا باہمی ربط || تحقیق و تحریر : طاہرے گونیش

 پیدل چلنے اور سوچنے کا باہمی ربط


تحقیق و تحریر : 

طاہرے گونیش 


 کسی جھیل کنارے، کسی جنگل میں،کسی پہاڑ پر یا قدرتی نظاروں کے درمیان پیدل چلتے ہوئے  انسان تنہا ہوتے ہوئے بھی تنہا نہیں ہوتا۔ اس کی سوچ، منطق، عقل اس پر حملہ آور ہو کر اس کے سفر کی ساتھی بن جاتی ہے۔ یوں باکمال دانش، شعور، اور منطق کے مظاہرے وجود پذیر ہوتے ہیں۔ کوئی خیال بھی بے معنی نہیں ہوتا۔

پیدل چلنا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ہے اور مجبوری بھی تھی کہ سبھی لوگ ہی پیدل چلا کرتے تھے۔ اس وجہ سے قدرت کے نظاروں یا پھر گرد و پیش کا جو مشاہدہ مجھے نصیب ہوا وہ اس پیدل چلنے کی وجہ سے ہوا۔

 فلسفہ و منطق میرا پسندیدہ  موضوع ہے اور لسانیات کے تناظر میں آپ کو ہر موضوع سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے لہذا آپ وسیع المطالعہ بن جاتے ہیں۔ اسی مطالعے سے مجھے معلوم ہوا کہ پیدل چلنا صرف بدن کے لئے نہیں بلکہ دماغ کے لئے بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ کئی مشہور  فلسفی و ادیب پیدل چلنے کو اپنا معمول و شعار بنا کر رکھتے تھے۔

 سقراط کے شاگرد افلاطون، اپنے استاد سقراط کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ روزانہ پیرائیوس Piraeus کی بندرگاہ تک پیدل چھ میل چلا کر کرتے تھے۔ اور اس دوران اپنے ساتھیوں سے مختلف موضوعات پر تنقیدی گفت و شنید بھی چل رہی ہوتی۔ 

افلاطون کے شاگرد ارسطو کی تمام  فلسفیانہ گفتگو جو وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ کرتے تھے وہ بھی  ایتھنز کی گلیوں میں پیدل چلتے سمے ہی ہوا کرتی تھی۔ اسی وجہ سے ارسطو کے پیروکاروں/ شاگردوں کو Peripatetics

کہا جاتا تھام یعنی وہ لوگ جو ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کیا کرتے ہیں یا پیدل چلا کرتے ہیں۔  مشہور 

ادیب ژاں ژاک رووسو جو رومانی و روشن خیالی  کے دور کے  مرکزی اور نمائندہ ادیب  تھے انھوں نے پیرس میں گھومتے ہوئے اپنی  آخری

سوانحی تحریر  

Reveries of a Solitary Walker

لکھی۔

جس میں انھوں نے سائنس اور  سیاسی فلسفے پر کھل کر اپنے خیالات کا ظہار کیا ہے۔ اور اس پیدل چلنے کے دوران ان کو دیگر مضامین بھی سوجھے جو انھوں نے اس کتاب میں شامل کیے ۔ رووسو کا دعوی ہے کہ وہ پیدل چلے بغیر کام نہیں کر سکتے حتی کہ وہ بیٹھے بیٹھے سوچ بھی نہیں سکتے۔

ایمانوئیل کانت بلوغت کی عمر سے لے کر بڑھاپے تک ایک ہی معمول پر کاربند رہے اور وہ تھا پیدل چلنا، چاہے موسم کوئی بھی ہو، بارش ہو یا آسمانی بجلی گرے یا سورج چمکتا رہے، کوئی چیز انھیں روک نہ سکتی۔وہ ساری زندگی  روزانہ اسی وقت اتنی دیر پیدل چلتے جتنی دیر اور  جس وقت پہلی بار چلے تھے۔ ہاں البتہ ایک بار وہ معمول سے ہٹ کر 

سکاٹش فلسفی  David Hume

کی کتاب

A Treatise of Human Nature

پڑھنے میں مشغول ہوگئے تھے۔ جو اس قابل تھی کہ اسے پورا ختم کیا جائے۔  بقول کانت' اس کتاب نے مجھے اپنے کٹر عقائد سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔' کانت کا یہ بھی ماننا تھا کہ پیدل چلتے سمے ناک سے سانس لینا مفید ہوتا ہے۔ 

مشہور فلسفی  آرتھر شوپنہاور

زندگی کے آخری 27 سالوں میں روزانہ دو گھنٹے پیدل چلنے کے معمول پر کاربند رہے۔ چاہے موسم کچھ بھی اور کوئی بھی ہوتا ۔ شوپنہاور تو پیدل چلتے وقت اپنی چھڑی سے درختوں کو چھوا بھی کرتے تھے۔

 فوق الانسان کا فلسفہ پیش کرنے والے فریڈرک نیطشہ کا قول ہے کہ ' تمام عظیم خیالات پیدل چلنے سے جنم لیتے ہیں۔ '

وہ روزانہ صبح دو گھنٹے  ناشتے کے بعد پیدل چلتے اور رات کے کھانے سے قبل اس سے زیادہ مدت چلتے۔ 

ویسے یہ اتفاق کی بات ہے کہ کانت شوپنہاور اور نیطشہ تینوں غیر شادی شدہ تھے۔ اس وجہ سے پیدل چلتے ہوں گے۔ لیکن میں شادی شدہ ہو کر بھی پیدل چلنے کو ترجیح دیتی ہوں۔ 

 برٹرینڈ رسل اپنی سوانح عمری میں  لکھتے ہیں کہ وہ یونیورسٹی کے دنوں میں ہر اتوار کو روزانہ بیس میل پیدل چلا کرتے تھے۔  اور کیمبرج یونیورسٹی میں ان کے کچھ دوست ان سے بھی زیادہ چلا کرتے تھے۔ 

ان سب کے علاوہ ایک مشہور ادیب ہنری ڈیوڈ تھوریو بھی تھا جو پیدل چلنے کے لئے مشہور تھا۔ اس نے اپنی ایک طویل مضمون بعنوان  'Walking' لکھا۔ 

اس کتاب میں پیدل چلنے کے حوالے سے خوشگوار امثال و واقعات موجود ہیں جو انسان کو پیدل چلنے کی افادیت بتانے کے ساتھ ساتھ اس پر اکساتی بھی ہیں۔ یہ مضمون  ماحولیاتی تحریک کی اساس کے طور پر بھی اولین رہا۔ 

تھوریو نے فطرت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔ 

'میں فطرت/قدرت کو   ایک لفظ میں سمیٹنا چاہتا ہوں اور وہ ہے مکمل آزادی و آوارگی۔ جو  تہذیب  و تمدن والی آزادی کے برعکس ہے جہاں انسان پابند معاشرے  کا حصہ ہوتا ہے جبکہ فطرت کے ماحول میں وہ اس کا  آزادانہ رہائشی ہوتا ہے۔' 

 اسی مضمون  میں ایک اور جگہ وہ کہتے ہیں : 'میں اپنی صحت اور روح کی توانائیاں تب تک بحال نہیں رکھ سکتا جب تک کہ میں تمام دنیاوی مصروفیات  ترک کرکے روز چار گھنٹے یا  عموما اس  سے زائد جنگلوں، پہاڑوں اور میدانوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے نہ گزاروں۔'

 تو دیکھا آپ نے کس طرح بڑے بڑے لوگ پیدل چلنے کو ترجیح دیتے تھے۔ آئیے میں آپ کو دروسکی نینکائی کی پیدل سیر پر ساتھ لے کر چلتی ہوں، جہاں پیڑوں،  پتوں کو چھوتے ہوئے مجھے اپنا آپ شوپنہاور جیسا لگتا رہا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post