Kesik Bıyık | کہانی: کٹی مونچھ | (Ömer Seyfettin)

 Kesik Bıyık

 کہانی: کٹی مونچھ

(Ömer Seyfettin)

از :عمر سیف الدین( مشہور ترک ادیب)

ترکش سے اردو

 ترجمہ: طاہرے گونیش


  ڈارون نامی شخص کی باتوں پر یقین کرنا چاہیے۔  جی ہاں. یہی کہ انسان بندر سے ارتقاء پا کر موجودہ حالت کو پہنچے ہیں!  کیونکہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں، فوراً اس کی نقل کرتے ہیں۔  بیٹھنا، کھڑا ہونا، پینا، چلنا، مختصراً، سب کچھ...


  بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ایک شیشے والا چشمہ  پہنتے ہیں، جسے ہم "monocles" کہتے ہیں، جبکہ انہیں ان کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔  کیونکہ فیشن البمز میں جو تصویریں وہ درزی کی دکان پر دیکھتے ہیں ان کا ایک ہی چشمہ ہوتا ہے۔


  بہرحال… آئیے مطلب کی بات کریں بجائے اس کے کہ ادھر ادھر کی ہانکیں۔  میں بھی ایک نقال ہوں۔  میں ہر  طرح کا فیشن کرتا ہوں۔  چھ سات سال پہلے میں نے دیکھا کہ ہر کوئی اپنی مونچھیں امریکی طرز پر تراش رہا ہے اور یقیناً آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں نے انہیں فوراً تراش دیا تھا۔  اوہ، ہاں، میں نے بھی مونچھ مونڈ لی۔ 

  سچ مچ، میں اپنے باپ دادا(بندروں) سے مشابہت رکھتا تھا،  بالکل  ویسی جیسی کہ ڈارون  بتانا چاہتا تھا۔

 

  لیکن پہلے تو مجھے اتنی شرمندگی ہوئی کہ میں آپ کے سامنے بیان نہیں کر سکتا۔  خاص طور پر پہلے دن میں عقبی گلیوں سے  ہوتا ہوا گھر آیا تھا تاکہ میرا کسی دوست سے آمنا سامنا نہ ہو۔  دروازہ کھولنے والی گھر کی لے پالک بیٹی نے مجھے اس حالت میں دیکھا تو ایک خوف زدہ دہشت بھری چیخ ماری۔  وہ ایک سہمی ہوئی گھوڑی کے خوف و ہیجان کے ساتھ چیختی ہوئی بھاگ گئی جس نے بھیڑیے کو دیکھ لیا ہو۔  میں دروازہ دھکیل کر اوپر چلا گیا۔  خنزیر کی بچی(شرارتی لڑکی) نے خدا جانے میری ماں سے کیا کہا۔   کہ میری ماں میرے کمرے میں آئی۔  میں نے اپنا منہ ایسے پکڑ رکھا تھا جیسے میرے دانت درد کر رہے ہوں اور میں مونچھیں نہیں دکھا رہا ہوں۔

اور مجھے مخاطب  کرکے کہا

'' آہ اے غدار، اے نیچ انسان !  تم اب سے میری اولاد نہیں رہے!'' 


  وہ  بیچاری ہچکیاں  لے کر سسک سسک رو رہی تھی۔  اس  بے چاری کے، لہو سے خالی ہاتھ کانپ رہے تھے اور اس کے دل کی  زوردار دھڑکنوں کی وجہ سے اس کا ہلتا ہواسینہ اور سسکیاں میرا سر  گھما رہے  تھے۔


  " کیوں ماں؟"  میں نے کہا.


  " کیوں؟"  اس نے کراہتے ہوئے کہا، "تمہاری مونچھیں کہاں ہیں؟"


"  میں اپنی مونچھیں تراش کر نیچ، غدار کیوں بنوں گا؟ "

 میری والدہ مزید سسک کر رونے لگی اور اس کے  دل کی دھڑکنیں مزید تیز ہوئیں ۔

 پھر کہا ۔

  ''کیا تمہیں  لگتا ہے کہ میں  نہیں سمجھتی، سادہ ہوں؟''  

"فری میسن ( دجال کے پیروکار)اپنی مونچھیں کاٹتے ہیں۔  تو تم بھی فری میسن ہوگئے ہو کیا !  جو دودھ میں  نے تمہیں پلایا ہے  وہ  تم پر حرام !  آہ، تو تم بھی فری میسن تھے اور ہمیں اس کا علم نہیں تھا! .."


  اگرچہ میں نے بارہا یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ میں نے یہ ذلالت محض نقالی کے چکر  میں مول لی ہے، بنا سوچے سمجھے،  مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔  میری ماں پھر سے رو پڑی۔  اسے میری باتوں پر یقین نہیں آیا۔  میرے گھٹنوں پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے بولی:


  "کاش میں نے تمہیں جنم دینے کی بجائے کسی پتھر کو جنم دیا ہوتا!"، وہ چیخ  رہی تھی۔


  کیا یہ ہو سکتا تھا کہ  میرے والد اس وقت نہیں نازل ہوتے؟... ہماری گود لی ہوئی بیٹی نے انھیں بھی بتایا کہ میری مونچھیں کیسی لگ رہی ہیں۔  میں کانپ اٹھا جب میں نے انھیں کھلے ہوئے دروازے سے اپنی موٹی چھڑی کے ساتھ اوپر چڑھتے دیکھا۔  میں جھوٹ بولوں گا اگر میں کہوں کہ مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا ۔   بلکہ مجھے لگ رہا تھا کہ میں برباد ہو گیا ہوں، تباہ ہو چکا ہوں۔  ابا جان  جلدی سے اندر داخل ہوئے۔  میں ابھی تک اپنی مونچھوں کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپے ہوئے تھا۔   وہ اپنی چھڑی کو ہوا میں لہراتے ہوئے چیخے:


  " اپنے ہاتھ ہٹاو تاکہ میں دیکھ سکوں! "..


    اب صورت حال قابو  سے باہر ہو چکی تھی۔  میں  جلدی سے جھوٹ گھڑتے ہوئے بولا:


  " بابا، آج جب میں سگریٹ سلگا رہا تھا، تو غلطی سے اپنی مونچھوں کو ایک طرف سے جلا بیٹھا... اسی لیے میں نے انھیں  مکمل مونڈ دیا ۔ "

 لیکن ہمارے بوڑھے سیانے بابا جان کو یہ بات  ہضم نہ ہوئی۔

  "تم مجھے  آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے پر مجبور نہیں کر سکتے"، انھوں نے کہا۔  

'تو کیا گلیوں میں پھرنے والے سارے آوارہ  لفنگوں کی مونچھیں  بھی ماچس سے جل گئیں؟"


  میں خاموش رہا۔  میں  نے جواب نہیں دیا۔


  میرے والد نے پھر جو  منہ کھولا  تو مارے بے مروتی کے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔


  میں الجھن میں تھا کہ ابا کے غصے کے سامنے کیا  حکمت  عملی اختیار کروں۔  "کاش میں نے اپنی مونچھیں مونڈنے کے بجائے اپنا سر کاٹ دیا ہوتا!"  میں نے آہ بھری۔  میرے والد نے اپنے آخری لفظ  کہے ۔ انھوں نے مجھے عاق کرکے گھر سے بے دخل کر دیا۔


  " اب فورا باہر دفع  ہو!  خبردار  پھر کبھی مت کہنا کہ  مجھے یہاں آنے دیں کیونکہ اگر تمہاری مونچھیں  دوبارہ اگ بھی جائیں گی تو عزت نہیں لوٹے گی۔" 


  مجھے کیا کرنا چاہئے؟  میں چار و ناچار گھر سے نکلا۔  میرے پاس جانے کا کہیں ٹھکانہ نہیں تھا۔  مجھے توپ قاپی میں اپنا ایک دوست یاد آیا۔

  ’’ چلو میں جا  کر  اس کا  مہمان بن کر اسے شرف میزبانی بخشتا ہوں‘‘ میں نے کہا۔


  میں ٹرام وے کی طرف چل پڑا۔  میں نے اپنے ایک کھلاڑی دوستوں کو گلی کے کونے پر دیکھا۔  جب اب  کی نظر مجھ پر پڑی تو بیک آواز بولے:

  " بونجور، بونجور!  "وہ چلّائے، "اب تم آدمی لگتے ہو... وہ تہہ دار  لمبی  گھنی مونچھیں کیا تھیں بھلا؟... کسی ینی چری(عثمانی دور کے سپاہی ) کمانڈر  کی طرح۔ قبر سے  اٹھے ہوئے مردے کی طرح !"


  میں نے نہ جواب دیا اور نہ ہی سلام  دعا کا تردد کیا۔  اور چل پڑا۔  ان حضرات کو مجھ پر بیتنے والی قیامت  بہت  بھلی اور خوشگوار معلوم ہورہی تھی ، جس کو میرے والد اور والدہ نے  کیاکیا مختلف معنی پہنائے تھے۔


  میں نے توپ قاپی  والی ٹرام لی۔  ٹرام اندر سے خالی اور الگ تھلگ تھی۔  میں مجرم کی طرح ایک طرف  ہو کر کھڑا رہا۔  ایک روایتی عثمانی پگڑی باندھے ہوئے سرمئی داڑھی والے بزرگ آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے۔  میں نے اپنا ٹکٹ خریدا۔   اب میں وقتاً فوقتاً باہر دیکھتا رہا۔  میری نگاہ حوجا آفندی(بزرگ) پر پڑی۔  میں نے غور کیا تو  وہ مجھے گھور رہے تھے... میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا ۔  میں  دل ہی دل میں کہہ رہا تھا، " کہیں یہ بھی  میری مونچھوں کی وجہ سے مجھ پر کفر کا فتوی صادر کرکے  دائرہء  ایمان سے خارج نہ کردیں۔"

  میرا دل مزید  تیزی سے دھڑک رہا تھا۔  میں اٹھ کر باہر جانا چاہتا تھا۔  میں تیار ہو ہی رہا تھا کہ  حوجا آفندی مسکرا کر بولے:

  " خدا آپ پر اپنا فضل و کرم کرے، بیٹا!  خدا آپ کو سلامت رکھے! " 

 میرا جوش اب حیرت کے ساتھ ملا ہوا تھا:

  " کیوں جناب؟"  میں نے پوچھا.

" آپ جیسے خوبرو نوجوانوں کو سنت پر عمل کرتے ہوئے دیکھنا ہمارے لیے کتنے بڑے فخر کی بات ہے۔

(میں سمجھا کہ سنت سے  مراد بزرگ ختنہ لے رہے ہیں۔)"

  بزرگ نے ہنس کر کہا:

   ''تم نے اپنی مونچھیں کاٹی ہیں میرے بیٹے"،

وہ بولے   ''کیا یہ عین سنت نہیں ہے؟''


تصویر: عمر سیف الدین

Post a Comment

Previous Post Next Post