کھَرارا( لوہے کا دندانے دار آلہ جس سے گھوڑوں یا گدھوں کے جسم کو رگڑ کر صاف کرتے ہیں۔)
(Kaşağı )
کہانی کار: عمر سیف الدین
ÖMER SEYFETTİN
ترکی سے اردو ترجمہ :طاہرے گونیش
جب ہم اصطبل کی ڈیوڑھی میں کھیلا کرتے تو ہمیں
نیچے چاندی رنگ کے بید کے درختوں تلے نگاہوں سے پوشیدہ بہتی ندی کی حزین گنگناہٹ سنائی دیتی تھی۔ ہمارا گھر شاہ بلوط کے ان دراز قامت درختوں کے پیچھے نظر سے اوجھل تھا جو اندرونی باڑ کے اندر لگے تھے۔ چونکہ ہماری والدہ صاحبہ استنبول جا چکی تھیں اس واسطے میں اور مجھ سے ایک سال چھوٹا بھائی حسن، ہم دونوں داداروح سے کبھی الگ نہیں ہوتے تھے۔
یہ آدمی ، میرے والد صاحب کا سائیس(گھوڑوں کا رکھوالا) ، ضعیف العمر سا سرکیشیائی (کوہ قاف میں آباد ایک قوم) تھا۔ صبح سویرے ہی ہم اصطبل کی جانب بھاگا کرتے تھے۔ ہماری سب سے پسندیدہ چیز گھوڑے ہوا کرتے تھے۔ داداروح کے ساتھ ان کو پانی پلانے لے جانا،ان کی ننگی پیٹھوں پر سواری کرنا کس قدر پر لطف تجربہ ہوتا تھا! جس سے دل بھرنا ممکن نہ تھا۔ حسن ڈرتا ، اکیلے گھڑ سواری سے کتراتا تھا۔ داداروح اسے اپنے آگے بٹھایا کرتے تھے۔ کپڑے کی تھیلیوں میں جو بھرنا، گھوڑوں کو چارہ ڈالنا ،اصطبل میں جھاڑو دینا، گوبر اٹھانا یہ سب ہمیں کسی بھی پر لطف کھیل سے زیادہ پسند ہوا کرتا تھا۔
سب سے بڑھ کر گھوڑوں کو رگڑنا!۔۔ یہ ہمارے لئے سب سے مرغوب مشغلہ تھا ۔ داداروح جب ہاتھ میں کھَرارا لے کر گھوڑے کو رگڑنے شروع کرتے ۔۔ٹک ٹک ٹک بالکل کسی گھڑی کی طرح ۔۔۔ مجھ سے رہا نہیں جاتا ' میں بھی کروں گا، میں بھی کروں گا۔' کہہ کر کھرارا لینا چاہتا۔
تب داداروح مجھے توصون(گھوڑے کا لقب) کی پیٹھ پر بٹھا کر، میرے ہاتھ میں کھرارا پکڑا کر: ' چلو کرو!' ' کہتے۔
یہ آہنی آلہ میں گھوڑے کی پیٹھ پر رگڑتا رہتا مگر وہ میٹھی مترنم آواز والی ٹک ٹک نکالنے میں ناکام رہتا۔
' کیا یہ دم ہلا رہا ہے؟ ' (میں پوچھتا۔)
'ہاں ہلا رہا ہے۔'
' ذرا دیکھوں تو۔'
میں جھکتا، آگے بڑھ کر لمبا ہو کر دیکھتا مگر گھوڑے کی پیٹھ پر سے اس کی دم نظر نہ آتی۔
ہر صبح اصطبل میں آتے ساتھ ہی :
' داداروح! رگڑائی میں کروں گا اچھا!' کہتا۔
' تم نہیں کر پاؤ گے۔'
'کیوں نہیں؟'
'کیونکہ تم ابھی چھوٹے ہو اس واسطے۔'
' کروں گا۔'
' پہلے تم بڑے تو ہو لو۔'
' کب؟'
' جب تمہارا قد گھوڑے کے برابر ہوجائے تب۔'
گھوڑے اور اصطبل کے کاموں میں بس میں صرف یہ رگڑائی کرنے کے قابل نہ تھا۔ میرا قد ، گھوڑے کے پیٹ تک بھی نہیں آتا تھا۔ جب کہ سب سے مزیدار و پر لطف چیز ہی یہی تھی۔ گویا کہ کھرارے کی ترتیب وار ٹک ٹک کی آواز توصون کو بھلی لگتی ہو، وہ اپنے کان ٹیڑھے کرتا اور اپنی دم کو بڑے سے پھندنے کی مانند ہلاتا جلاتا رہتا۔
جیسے ہی رگڑائی کا عمل ختم ہونے کے قریب ہوتا تو وہ بدمستی پر اتر آتا تو اس وقت داداروح ' ہت!' کہہ کر اس کی پیٹھ پر ایک تھپڑ رسید کرکے پھر باری کے منتظر دوسرے گھوڑوں کی رگڑائی شروع کرتے۔
ایک دن میں تن تنہا رہ گیا ۔ داداروح حسن کو لے کر ندی کے کنارے تک گھڑ سواری کرنے گئے ہوئے تھے۔ میرے اندر گھوڑے کی رگڑائی کی امنگ نے انگڑائی لی۔ میں نے کھرارا ڈھونڈا۔ نہیں ملا۔ اصطبل کے کونے میں دادا روح کا بنا کھڑکی والا ،چھوٹا سا ایک کمرہ واقع تھا۔ اس میں داخل ہوا۔
طاقچے چھان مارے۔ گھوڑے کی زینوں کے بیچ تلاش کیا۔
نہیں ملنا تھا نہ ملا!
ان کی چارپائی کے پاس ہرے رنگ کا لکڑی والا صندوق پڑا تھا۔ اسے کھولا۔ میں تو پھولا نہیں سما رہا تھا قریب تھا کہ خوشی کے مارے چیخ مارتا۔ ایک ہفتہ قبل میری ماں کی جانب سے استنبول سے بھیجے گئے تحائف میں ایک تانبے سے بنا کھرارا تھا۔
وہ ایسے جگ مگ جگ مگ کرتا چمک رہا تھا۔ اسی وقت اٹھا کر میں توصون کی جانب بھاگا۔ میں اس کے پیٹ کو رگڑنا چاہتا تھا۔ مگر وہ سکون سے کھڑا نہیں ہو رہا تھا، مڑتا اور اپنی ناک سے مجھے مارتا تھا۔ اس کے بعد بندھے ہوئے گھوڑے بھی نہیں ٹھہر رہے تھے۔
' میرا خیال ہے کہ ان کو درد ہو رہا ہے۔' میں نے خود سے کہا۔
میں نےچاندی کی طرح چمکتے اس کھرارے کے دانتوں کو دیکھا۔کافی تیز اور نوکیلے تھے۔ ذرا سا کند کرنے کے لئے میں ان کو دیوار کے پتھروں سے رگڑنا شروع ہوگیا۔ اس کے دندان ٹوٹتے ساتھ ہی میں نے پھر سے کوشش کی۔ اب بھی کوئی گھوڑا آرام سے رکنے کو تیار نہ تھا۔مجھے غصہ آگیا،میں اپنا غصہ اس کھرکھرے پر نکالنا چاہتا تھا۔ میں دس قدم پر واقع چشمے کی جانب دوڑا ،اور پانی نکالنے والی جگہ پر پڑے پتھر پر کھرارا رکھا۔ زمین پر سے جتنا وزنی پتھر اٹھا سکتا تھا اٹھا کر اس پر جلدی جلدی ضرب لگانا شروع ہوگیا۔ استنبول سے آیا ہوا ،نیا نکور یہاں تک کہ داداروح کا ابھی تک غیر استعمال شدہ یہ خوب صورت کھرارا میں نے کچل ڈالا،ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
اس کے بعد طاس کے نیچے پھینک دیا۔
میرے والد صاحب ہر صبح باہر نکلتے وقت ایک بار اصطبل سے ہوتے ہوئے،آگے پیچھے دیکھا کرتے تھے۔ میں اس دن پھر سے اصطبل میں اکیلا تھا۔ حسن گھر پر ، ہماری خادمہ پروین کے ساتھ تھا۔ میرے والد چشمے کو دیکھتے سمے، طاس کے نیچے ٹوٹے ہوئے کھرارے کو دیکھ کر داداروح کو پکار کر لائے۔
' یہاں آؤ!'
میرا دم نکلنے والا تھا، پتہ نہیں میں کیوں اتنا سہم گیا تھا۔ داداروح بھی حیران رہ گئے تھے۔ ٹوٹے ہوئے کھرارے کو باہر نکال کر والد صاحب نے دریافت کیا کہ یہ کس کی کارستانی ہے۔
داداروح نے کہا : ' میں نہیں جانتا۔' میرے والد کی نگاہیں مڑ کر مجھ تک آئیں۔ ابھی انھوں نے کچھ پوچھا ہی نہیں تھا کہ میں بول اٹھا: ' حسن!'
'حسن نے ؟'
' ہاں ، کل جب داداروح سو رہے تھے وہ ان کے کمرے میں گھسا، صندوق سے کھرارا نکالا اور پھر اس طاس کے پتھر کے نیچے اسے کچل ڈالا۔'
' تم نے داداروح کو بتایا کیوں نہیں ؟'
' وہ سو رہے تھے۔'
' بلاؤ اسے دیکھتا ہوں!'
میں باڑ کے دروازے سے گیا ،سایہ دار رستے سے سیدھا گھر کو بھاگا۔حسن کو بلا لایا . بیچارے کو کسی چیز کا کچھ پتہ نہیں تھا۔وہ میرے پیچھے پیچھے آیا۔ والد صاحب بہت سخت گیر تھے، ان کی ایک گھوری ہمیں ڈرانے کے لئے کافی تھی۔ انھوں نے حسن سے کہا کہ "
' دیکھو اگر تم جھوٹ بولے گے تو تمہیں مار پڑے گی مجھ سے۔'
' نہیں بولوں گا۔' وہ بولا
' اچھا، اس کھرارے کو کیوں توڑا تم نے؟ ' حسن ، داداروح کے ہاتھ میں موجود کھرارے کو حیرانی کے عالم میں دیکھتا رہا، پھر اپنے سنہری بالوں والے سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے بولا: ' میں نے نہیں توڑا۔'
' میں کہتا ہوں جھوٹ مت بولو!'
'میں نے نہیں توڑا۔'
والد صاحب ایک بار پھر گویا ہوئے ' سچ سچ بتاؤ، میں غصہ نہیں کروں گا، جھوٹ بولنا مہنگا پڑے گا!'
حسن انکار پر اڑا ہوا تھا۔ والد صاحب غصہ ہوئے آگے بڑھے۔ ' بے شرم جھوٹے!' کہہ کر اس کے گال پر ایک تھپڑ رسید کرگئے۔ حسن ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع ہوا۔ والد صاحب داداروح سے دھاڑ کر بولے۔'اسے گھر لے جاؤ! خبردار جو اسے دوبارہ یہاں لائے، بس ہمیشہ پروین کے ساتھ ہی رہے تو اچھا ہے!'
داداروح میرے روتے بلکتے بھائی کو بازوؤں میں اٹھا کر باڑ کے دروازے سے سیدھا اندر لے جا کر چلے گئے۔
اب میں اصطبل میں تن تنہا کھیلا کرتا تھا۔ حسن گھر پر نظر بند تھا۔ میرے والد صاحب ، حسن کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے اس کا چہرہ تک دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔ میری ماں آنے کے بعد بھی اسے معافی نہ دلوا پائی۔
والد مہلت پاتے ہی بولتے۔ ' وہ جھوٹا ہے!'
حسن خود کو پڑنے والا تھپڑ یاد کرکے رونا شروع کرتا اور بڑی مشکل سے چپ ہوتا۔ میری ماں بیچاری کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں اپنے بھائی پر افترا باندھ سکتا ہوں۔
وہ ہمیشہ کہتی۔
' اس بیوقوف داداروح نے گھوڑوں سے تڑوایا ہوگا۔ میرے بچے حسن نے نہیں توڑا'
اگلے سال میری ماں کو پھر استنبول جانا پڑا۔ ہم تنہا رہ گئے۔ حسن کو اصطبل جانے کی اجازت اب بھی نہ تھی۔ رات کو وہ بستر پر لیٹتے وقت مجھ سے پوچھتا کہ گھوڑے کیا کر رہے ہیں اور کیسے ہیں اور ان کے بچے بڑے ہوئے کہ نہیں۔ ایک دن اچانک وہ بیمار پڑ گیا، ہم نے قصبے میں گھوڑا بھیج کر طبیب بلوالیا۔ اس نے خناق کی تشخیص کی۔ کھیتوں میں کام کرنے والی گاؤں کی عورتیں ہمارے گھر میں جمع ہونے لگیں۔ وہ کوئی درجن بھر چڑیاں لے کر ، ذبح کرکے میرے بھائی کی گردن سے وارتی تھیں۔
میرے والد صاحب حسن کے بستر سے الگ نہیں ہوتے تھے۔ داداروح کو بالکل چپ لگ گئی تھی ۔ پروین دھاڑیں مار مار کر روتی تھی۔
' کیوں رو رہی ہیں؟ ' میں نے پوچھا۔
' تمہارا بھائی بیمار ہے۔'
' ٹھیک ہوجائے گا۔'
' نہیں ہوگا۔'
' اوہو تو پھر کیا ہوجائے گا؟'
' تمہارا بھائی مر جائے گا! اس نے کہا۔
'کیا ؟ مر جائے گا؟'
میں بھی رونے لگ گیا۔ جب سے حسن بیمار پڑا تھا میں پروین کے پاس سوتا تھا۔ اس رات میں بالکل نہ سو سکا۔ سوتے ساتھ ہی میرے خواب میں حسن آنکھوں کے سامنے آگیا اور ' الزام تراش ، الزام تراش' کہتے ہوئے میرے سامنے روتا رہا۔ میرے چھوٹے سے دماغ میں اپنے خواب کی ہولناکی سے میں نے دہشت برپا کر رکھی تھی۔
کل کو روز آخرت۔۔۔ کون جانے میرا بھائی اگر اس بے گناہ کھائے تھپڑ کا حساب مجھ سے مانگے گا تو!!! میں نے پروین کو جگایا اور کہا۔
' مجھے حسن کے پاس جانا ہے۔'
' کس لئے؟'
' مجھے اپنے والد سے کچھ کہنا ہے۔'
' کیا کہو گے ان کو؟'
' کھرارا میں نے توڑا تھا ،میں ان کو بتاؤں گا۔ '
' کون سا کھرارا؟'
' پچھلے سال والا. وہ نہیں تھا جس کی وجہ سے بابا حسن سے ناراض ہوئے تھے۔۔۔'
میں اپنی بات مکمل نہ کر پایا، روتے روتے میری ہچکی بندھ گئی۔ روتے روتے میں نے پروین کو کہہ سنایا۔ ابھی میں والد صاحب کو بتاؤں گا تو حسن بھی سنے گا ،بلکہ مجھے معاف کر دے گا۔
پروین نے کہا۔' کل کہہ دینا۔'
'نہیں مجھے ابھی جانا ہے۔'
'ابھی تمہارے والد صاحب سو رہے ہیں، کل صبح کہہ دینا۔حسن بھی سنے گا۔اسے چوم لینا، رو لینا۔۔۔ وہ اپنی حق تلفی کو معاف کر دے گا۔'
'اچھا۔'
'چلو، اب سو جاؤ۔'
صبح تک پھر میری آنکھ نہ لگ سکی۔ ماحول کچھ بوجھل سا محسوس کرتے ہوئے میں نے پروین کو جگایا۔ وہ اٹھ گئی۔ میں اپنے اندر کے زہر کی طرح بھاری دکھ کو ہلکا کرنے کے لئے عجلت سے کام لے رہا تھا۔
مگر، کس قدر دیر ہو چکی تھی، کس قدر غم بڑھ چکا تھا!۔۔۔
میرا بیچارہ معصوم بے گناہ بھائی اس رات فوت ہوچکا تھا۔
صوفے پر گاؤں کے امام کے ساتھ میں نے داداروح کو روتے دیکھا۔ وہ میرے والد صاحب کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔
Post a Comment