'میری ماں کو سب سے بڑی فکر یہ لاحق تھی کہ میں کیسے پڑھوں گا۔ میں چوتھی جماعت میں پہنچ چکا تھا۔ لیکن میری والدہ مجھے جزیرے پر پرائمری اسکول بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتی تھیں۔ انہوں نے مجھے مفت بورڈنگ اسکول بھیجنے کا سوچا۔ لیکن پرائمری اسکول سے فارغ نہ ہونے والے طلبہ کے لیے ایسا کوئی اسکول نہیں تھا۔ وہاں صرف دارالشفقہ تھا۔ دارالشفقہ داخلہ امتحان کے ذریعے مفت بورڈنگ طلباء کو چوتھی جماعت میں داخل کر رہا تھا۔ لیکن صرف یتیم(بن باپ کے) بچوں کو دارالشفقہ میں داخہ ملتا تھا۔ تاہم، میرا ایک باپ تھا۔ تھا، لیکن کہاں تھا؟ شاید اس دن، شاید چند مہینوں بعد، میرے والد کہیں سے نمودار ہوجائیں۔
امام شوکت آفندی نے یا تو 'سلیم بے' کے اچھے اعمال دیکھے ہوں گے، یا میرے والد سے بہت محبت کرتے تھے، یا بہت رحم دل انسان تھے، اس لیے انھوں نے سرٹیفکیٹ/سند لکھا، اس پر مہر لگائی، دستخط کیے اور مجھے دے دیا۔ انھوں نے جو سرٹیفیکیٹ مہر لگا کر مجھے دیا اس میں یہ نہیں لکھا تھا کہ میرے والد فوت ہوچکے ہیں، صرف یہ لکھا تھا کہ’’مہمت نصرت(عزیز نے سن کا اصل نام) کے والد موجود نہیں ہیں‘‘۔ اگر شوکت آفندی نے مجھے وہ سند نہ دیا ہوتا تو میرے پاس یہ سطریں لکھنے کا ہنر نہ ہوتا، میں وہ شخص نہ بن پاتا جو میں آج ہوں، اور مجھے پرائمری اسکول مکمل کرنے کا موقع بھی نہ ملتا... 1926 میں، ہم ایک سو بچوں نے دارالشفقہ کا داخلہ امتحان پاس کیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ تیس بچوں کو سکول میں لے رہے تھے۔ سیڑھیوں کے نیچے باغ میں قرعہ ڈالا جا رہا تھا۔ بچے آتے اور کپڑے والی بوری میں ہاتھ ڈالتے :
خالی.. خالی.. خالی..
ہارنے والے منہ پھیر رہے تھے، گردن جھکا کر بے بسی اور ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے اور رو رہے تھے۔
خالی ..خالی
کاغذ نکلتے رہے۔
میں نے پہلا 'بھرا ہوا' کاغذ نکالا تھا۔ اب میں سوچتا ہوں، میں تلخی سے سوچتا ہوں۔ کیا ہوتا اگر میں نے خالی کاغذ نکالا ہوتا؟ شاید میں پڑھا لکھا بھی نہ ہوتا، اب میرا وجود نہ ہوتا۔ پوری زندگی کا انحصار اس بات پر ہے کہ کاغذ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر "خالی" یا "بھرا ہوا" درج ہے۔
میں بطور 'بن باپ کا بچہ ' کے دارالشفقہ میں داخل ہوا تھا۔ لیکن_ دو سال بعد میرے والد صاحب کہیں سے لوٹ آئے۔ میرے والد کے ساتھ دوبارہ ملنے کی خوشی ،میرے یتیم دوستوں کی روٹی (ان کا حق) کھانے کے درد کے ساتھ مل گئی۔ یہ بوجھ جو میرے گیارہ سال کے ننھے کندھوں پر پڑا تھا۔
میں اسے برداشت نہیں کر سکا۔ میں آج تک کسی سے کچھ کہے بغیر دارالشفقہ سے بھاگ گیا۔'
عزیز نے سن
کی کتاب
ایسا تو نہیں ہوتا ہے۔'
سے اقتباس
ترکی سے اردو ترجمہ: طاہرے گونیش
ملاحظہ: عزیز نے سن کی کتاب/سوانح عمری کا ٹائٹل بھی بہت دلچسپ ہے۔ یعنی ایک ترک محاورے
' Böyle Gelmiş Böyle Gider'
جس کا مطلب 'ایسا تو ہوتا آیا ہے یا یہ صدیوں سے رواج ہے۔ '
یا پھر محاورے کی زبان میں
' جنگلی ہنس نے انڈہ نہیں رکھا یا دیا '
سے بدل کر
'Böyle Gelmiş Böyle Gitmez '
یعنی
' ایسا تو نہیں ہوتا ہے۔ یا اب ایسا نہیں ہوگا۔' وغیرہ کر دیا ہے۔ کیونکہ عزیز نے سن کو ذو معنی بات کرنے یا ایک جیسے لفظوں کو بدل کر ان سے تلخ قسم کا مزاح کشید کرنے میں ید طولی حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ترک ادبیات میں مزاح نگاری کا بڑا نام ہیں۔ جو بات سے بات نکالتے اور ان باتوں کو مزاح کا مکھن لگاتے۔
تصویر: عزیز نے سن (بائیں جانب)کے بچپن کی تصویر

Post a Comment